بھارت کی جانب سے پانی چھوڑے جانے اور شدید بارشوں کے باعث دریائے راوی، چناب اور ستلج بھپر گئے جس کے باعث سیلاب نے پنجاب میں تباہی مچا دی، کئی اضلاع زیر آب آگئے اور کھڑی فصلیں تباہ ہوگئیں جبکہ مال مویشی سیلاب کی نذر ہوگئے، اب تک 20 افراد جاں بحق ہوگئے۔
دریائے راوی کے بھپرنے سے لاہور کے مختلف علاقوں میں پانی داخل ہوگیا۔
تھیم پارک، موہلنوال، مرید وال، فرخ آباد، شفیق آباد، افغان کالونی، نیو میٹر سٹی اور چوہنگ ایریا سے محفوظ انخلا مکمل کر لیا گیا۔ طلعت پارک بابو صابو میں ریسکیو اور ریلیف آپریشن تیزی سے جاری ہے۔
پارک ویو ہاؤسنگ سوسائٹی کے چار بلاکس میں پانی داخل ہوا تاہم رہائشیوں کو بروقت نکال لیا گیا۔
لاچیوالی اسکول کے ریلیف کیمپ میں 70 سے زائد افراد مقیم ہیں۔ بیشتر متاثرین چوہنگ اور ٹھوکر ریلیف کیمپ میں مقیم ہیں، قیام و طعام کی بہترین سہولتیں میسر کی گئی ہیں۔
نیشنل ایمرجنسی آپریشن سینٹر (NEOC) نے دریائے چناب، راوی اور ستلج میں پانی کی سطح بلند ہونے پر شدید سیلابی الرٹ جاری کر رکھا ہے جبکہ حکومت پنجاب کی جانب سے ریسکیو اور ریلیف آپریشن جاری ہے۔
پنجاب کے دریاؤں میں پانی کی سطح بلند ہے تاہم بیشتر مقامات پر صورتحال مستحکم ہے اور بڑے ہیڈ ورکس پر بہاؤ قابو میں ہے۔
پی ڈی ایم اے کے مطابق دریائے چناب، راوی اور ستلج کے مختلف ہیڈ ورکس پر پانی کی آمد و اخراج جاری ہے لیکن بیشتر جگہوں پر سطح میں استحکام دیکھا جا رہا ہے۔
محکمہ آبپاشی کی رپورٹ کے مطابق دریائے راوی میں جسّر کے مقام پر 85 ہزار 980 کیوسک پانی کی سطح برقرار ہے جبکہ راوی سائفن پر دو لاکھ دو ہزار 428 کیوسک پانی میں کمی دیکھی جا رہی ہے۔
شاہدرہ کے مقام پر بھی دو لاکھ ایک ہزار 400 کیوسک پانی کے ساتھ سطح نیچے جا رہی ہے۔ تاہم بلوکی ہیڈ ورکس پر پانی کی مقدار ایک لاکھ 51 ہزار 560 کیوسک ہے اور وہاں سطح میں اضافہ ہو رہا ہے۔ سدھنائی ہیڈ ورکس پر بہاؤ 25 ہزار 478 کیوسک ہے جو مستحکم ہے۔
دریائے ستلج میں گنڈا سنگھ والا پر دو لاکھ 61 ہزار 53 کیوسک پانی کا بہاؤ ہے، سلیمانکی ہیڈ ورکس پر ایک لاکھ 13 ہزار 124 کیوسک جبکہ اسلام ہیڈ ورکس پر 60 ہزار 814 کیوسک پانی کی صورتحال جوں کی توں ہے۔
دریائے چناب میں مرالہ ہیڈ ورکس پر پانی کا اخراج ایک لاکھ 16 ہزار 440 کیوسک ہے جبکہ خانکی ہیڈ ورکس پر ایک لاکھ 88 ہزار 100 کیوسک پانی گزر رہا ہے۔
قادر آباد ہیڈ ورکس سے دو لاکھ 17 ہزار 375 کیوسک پانی کا بہاؤ مستحکم ہے اور چنیوٹ پل پر آٹھ لاکھ 42 ہزار 500 کیوسک پانی موجود ہے۔ تریموں ہیڈ ورکس پر بھی ایک لاکھ 29 ہزار 372 کیوسک پانی کے ساتھ صورتحال قابو میں ہے۔
ڈی جی پی ڈی ایم اے کی بریفنگ
صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (پی ڈی ایم اے) کے ڈائریکٹر جنرل عرفان علی کاٹھیا نے کہا ہے کہ لاہور میں دریائے راوی کے مقام شاہدرہ سے گزرنے والا دو لاکھ 20 ہزار کیوسک کا ریلا 1988 کے بعد سب سے بڑا تھا، تاہم خوش قسمتی سے شہر میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔
ان کے مطابق اب شاہدرہ کے مقام پر پانی کی سطح بتدریج کم ہو رہی ہے اور آئندہ چند گھنٹوں میں مزید کمی متوقع ہے۔
ڈی جی پی ڈی ایم اے نے بتایا کہ لاہور میں سیلابی پانی 9 مقامات پر داخل ہوا، جہاں متاثرہ افراد کو بروقت ریسکیو کر لیا گیا۔ اس وقت بلوکی کے مقام پر ایک لاکھ 47 ہزار کیوسک پانی گزر رہا ہے اور یہ پانی ڈاؤن اسٹریم سے آگے دریائے راوی میں شامل ہوگا۔ حکومت نے دریا کے گزرگاہوں میں بسنے والے لوگوں کو سختی سے انخلا کا حکم دیا ہے اور بعض مقامات پر طاقت کا استعمال کرکے بھی انخلا کروایا گیا ہے۔
عرفان کاٹھیا نے کہا کہ انڈیا کی جانب سے مادھوپور ہیڈ ورکس سے مسلسل 80 ہزار کیوسک پانی آرہا ہے، جو لاہور شاہدرہ سے گزر کر آگے چنیوٹ اور پھر ریواز برج تک پہنچے گا۔ ان کے بقول ریواز برج اس وقت حکومت کے لیے سب سے بڑی تشویش ہے اور اس مقام پر بند توڑنے کے بارے میں غور کیا جارہا ہے تاکہ جھنگ کو محفوظ رکھا جا سکے۔ اسی طرح تریمیمو کے بعد پانی ہیڈ محمد والا اور پھر ملتان کے نظام میں شامل ہوگا۔
ڈی جی پی ڈی ایم اے کے مطابق پچھلے چار روز سے قصور کے قریب دریائے ستلج میں دو لاکھ سے زائد کیوسک پانی کا بہاؤ جاری ہے، جس کے باعث سلیمانکی کے مقام پر صورتحال خطرناک ہوتی جا رہی ہے۔ صوبے میں اب تک ایک ہزار سات سو انہتر مواضعات زیر آب آچکے ہیں، چودہ ہزار سے زائد افراد براہِ راست متاثر ہوئے ہیں جبکہ چار ہزار سے زیادہ لوگ کیمپوں میں موجود ہیں۔ مجموعی طور پر اب تک چار لاکھ سے زائد افراد کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا گیا ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ پنجاب میں سیلاب کے باعث اب تک 20 اموات ہوچکی ہیں اور خدشہ ہے کہ متاثرین کی تعداد میں مزید اضافہ ہوگا۔ ان کا کہنا تھا کہ جب تک یہ پانی سندھ میں داخل نہیں ہوتا پنجاب ہائی الرٹ پر ہے اور سندھ حکومت کو پہلے ہی آگاہ کر دیا گیا ہے۔
عرفان علی کاٹھیا نے بتایا کہ کوہ سلیمان پر بارشوں کا نیا سلسلہ شروع ہو رہا ہے جس سے رود کوہیوں میں پانی کا بہاؤ بڑھے گا۔ ان کے مطابق بھارت نے پانی کے اخراج کے بارے میں بروقت معلومات فراہم نہیں کیں جس سے نقصان میں اضافہ ہوا، اور اسی تاخیر پر بین الاقوامی میڈیا نے بھی بھارت پر تنقید کی ہے۔
انہوں نے کہا کہ فلڈ پلان ایکٹ کے تحت اب آبی گزرگاہوں میں موجود تمام غیرقانونی تعمیرات کو خالی کرایا جائے گا تاکہ مستقبل میں بڑے نقصانات سے بچا جاسکے۔ شہریوں سے اپیل ہے کہ وہ فوری طور پر دریا کے راستوں کو خالی کردیں تاکہ ریسکیو اور ریلیف کے اقدامات موثر انداز میں جاری رکھے جا سکیں۔
ملتان کے ہیڈ محمد والا پر کنٹرولڈ شگاف ڈالنے کا فیصلہ
ملتان میں دریائے چناب کی بپھری موجوں کے باعث اونچے درجے کے سیلاب کا خطرہ بڑھ گیا ہے، جس کے پیش نظر ضلعی انتظامیہ نے ہنگامی حفاظتی اقدامات شروع کر دیے ہیں۔
ڈپٹی کمشنر وسیم حامد کے مطابق، شہری آبادی کو ممکنہ تباہی سے بچانے کے لیے ہیڈ محمد والا کے مقام پر کنٹرولڈ شگاف ڈالنے کا فیصلہ کیا گیا ہے تاکہ سیلابی دباؤ کو کم کیا جا سکے۔ ان کے مطابق متاثرہ علاقوں سے اب تک 60 فیصد تک آبادی کا انخلا مکمل کر لیا گیا ہے، جبکہ باقی افراد کو نکالنے کے لیے بھی ریسکیو آپریشن جاری ہے۔
این ای او سی کے مطابق 31 اگست کو ہیڈ تریمو پر پانی کا بہاؤ 7 سے 8 لاکھ کیوسک تک پہنچنے کا خدشہ ہے، جو جھنگ اور گرد و نواح کے علاقوں کو شدید متاثر کر سکتا ہے۔
3 ستمبر تک سیلابی ریلا پنجند تک پہنچے گا، جہاں 6.5 سے 7 لاکھ کیوسک کے درمیان بہاؤ متوقع ہے
شہریوں کا انخلاء
پنجاب میں حالیہ سیلاب کے باعث متاثرہ علاقوں میں ریسکیو اور ریلیف کی سرگرمیاں بھرپور انداز میں جاری ہیں۔
دریائے چناب، راوی، ستلج، جہلم اور سندھ سے ملحقہ علاقوں سے 3 ہزار سے زائد افراد کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا جا چکا ہے، جبکہ مجموعی طور پر صوبے بھر سے 45 ہزار سے زائد افراد کا انخلاء ممکن بنایا گیا ہے۔
سب سے زیادہ متاثرہ اضلاع میں گجرات، گجرانوالہ، منڈی بہاالدین، حافظ آباد، نارووال، شیخوپورہ، ننکانہ صاحب، قصور، اوکاڑہ اور پاکپتن شامل ہیں۔ پنجاب کے 30 اضلاع میں جاری ٹرانسپورٹیشن آپریشن میں 669 بوٹس اور 2861 ریسکیورز شریک ہیں۔