’چیف آف آرمی اسٹاف چیف آف ڈیفنس فورسز بھی ہوں گے‘،27ویں آئینی ترمیم کا مجوزہ مسودہ سامنے آگیا

آئین پاکستان میں 27ویں آئینی ترمیم کا بل ایکسپریس نیوز کو موصول ہوگیا، مجوزہ ڈرافٹ 48شقوں اور 25صفحات پر مشتمل ہے۔

مجوزہ ڈرافٹ کے مطابق آئینی ترمیم بل کا مقصد آئین میں مزید تبدیلیاں کرنا ہے، بل فوری طور پر نافذ العمل ہو گا، آرٹیکل 42 میں لفظ پاکستان کی جگہ فیڈرل کونسٹی ٹیوشنل کورٹ تجویز ہے۔

آرٹیکل 59 میں ممبران کی مدت کی وضاحت شامل ہیں، ہر رکن کی مدت 11 مارچ کو مکمل تصور ہو گی۔ آرٹیکل 63A میں لفظ سپریم بدل کر فیڈرل کونسٹی ٹیوشنل کرنے کی تجویز ہے۔

آرٹیکل 68 میں پارلیمانی بحث کے حوالے سے فیڈرل کونسٹی ٹیوشنل کورٹ کا ذکر شامل ہے۔

آرٹیکل 243 میں مجوزہ ترامیم کے مطابق صدر مملکت وزیراعظم کی ایڈوائس پر چیف آف آرمی اسٹاف کا تقرر کریں گے، چیف آف آرمی اسٹاف چیف آف ڈیفنس فورسز بھی ہوں گے۔

27 نومبر سے چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کا عہدہ ختم کرنے کی تجویز ہے، وزیراعظم آرمی چیف کی سفارش پر نیشنل اسٹریٹیجک کمانڈ کے سربراہ کا تقرر کریں گے، فیلڈ مارشل، مارشل آف ایئر فورس اور ایڈمیرل آف فلیٹ کا رینک مراعات اور وردی تاحیات رہیں گے۔

آرٹیکل 78 میں ترمیم متعلقہ پیراگراف میں فیڈرل کونسٹی ٹیوشنل کورٹ کا ذکر شامل کرنے کی تجویز ہے، آرٹیکل 81 میں ترمیم دونوں پیراگراف میں عدالت کا اضافہ تجویز ہے۔

مجوزہ ڈرافٹ کے مطابق آئینی عدالت 7ججز پر مشتمل ہو گی، آرٹیکل 93 میں تبدیلی: لفظ 5 کی جگہ 7 کرنے کی تجویز شامل ہے، آرٹیکل 100 میں ترمیم: لفظ سپریم کی جگہ وفاقی آئینی شامل کرنے کی تجویز ہے۔

آرٹیکل 114 میں ترمیم کے دوسری بار آنے والے لفظ کے بعد عدالت کا نام شامل کرنے کی تجویز ہے، آرٹیکل 165A میں ترمیم بھی مجوزہ ڈرافٹ کا حصہ ہے۔

آرٹیکل 165A میں دوسرے مقامات پر فیڈرل کونسٹی ٹیوشنل کورٹ کا اضافہ تجویزکیا گیا ہے، سرکاری اخراجات اور عدالتی دائرہ کار سے متعلق حوالوں میں تبدیلی، آرٹیکل 175 میں ترمیم بھی ایجنڈے کا حصہ ہے۔

آرٹیکل 175 کی تعریف میں فیڈرل کونسٹی ٹیوشنل کورٹ آف پاکستان کا ذکر شامل کرنے کی تجویز ہے، آرٹیکل 175A میں بڑی تبدیلیاں کر دی گئی۔

عدالتی تقرری کے طریقہ کار میں فیڈرل کونسٹی ٹیوشنل کورٹ کا کردار شامل کرنے کی تجویز ہے، چیف جسٹس فیڈرل کونسٹی ٹیوشنل کورٹ کو جوڈیشل کمیشن میں نمائندگی ملنے کی تجویز ہے۔

جوڈیشل کمیشن کی تشکیل نو، سپریم کورٹ اور فیڈرل کونسٹی ٹیوشنل کورٹ کے سینئر ججز شامل ہوں گے۔

اعلی عدلیہ میں ججوں کی تعیناتی کیلئے آرٹیکل 175اے میں ترمیم کی تجویز، وفاقی آئینی عدالت کے چیف جسٹس جوڈیشل کمیشن کے ممبر ہونگے، سپریم کورٹ کے چیف جسٹس بھی جوڈیشل کمیشن کے ممبر ہونگے، سپریم کورٹ اور وفاقی آئینی عدالت نے سنیئر ایک ایک جج بھی جوڈیشل کمیشن کے ممبر ہونگے۔

ویں آئینی ترمیم سو موٹو اختیارات ختم کرنے اور آرٹیکل 184مکمل شق ختم کرنے کی تجویز ہے، ویں آئینی ترمیم میں سپریم کورٹ سے سوموٹو کے اختیارات واپس لینے کی تجویز ہے۔

وفاقی آئینی عدالت کے چیف جسٹس اور سپریم کورٹ کے چیف جسٹس آئینی عدالت یا سپریم کورٹ کے کسی جج کو مشترکہ طور پر 2 سال کیلئے نامزد کر سکتی ہے۔

وفاقی آئینی عدالت کے ججز کی تعداد ایکٹ آف پارلیمنٹ یا صدر کی منظوری سے کیا جائیگا۔

وفاقی آئینی عدالت کے جج کا پاکستانی شہری ہونا لازمی قرار دینے اور وفاقی آئینی عدالت کے جج کیلئے 68 سال عمر کی حد مقرر کرنے کی تجویز ہے، آئینی عدالت میں 20سال وکالت کا تجربہ رکھنے والا وکیل جج بننے کی اہلیت رکھ سکے گا۔

27ویں آئینی ترمیم سے قبل مفاد عامہ کے تمام مقدمات جو آئینی بینچز میں زیر سماعت تھے خودکار طور پر وفاقی آئینی عدالت میں منتقل ہو گے۔

وفاقی آئینی عدالت دو وفاقی اور صوبوں حکومتی کے مابین تنازعات کا مقدمہ سننے کی مجاز ہوگی، صدر مملکت کی جانب سے دائر ریفرنس کی سماعت بھی آئینی عدالت کرنے کی مجاز ہوگی۔

وفاقی آئینی عدالت میں ہائی کورٹ کو وہ جج ممبر بن سکتا ہے جس نے ہائی کورٹ میں کم از کم 7سال بطور جج خدمات دی ہوں، وفاقی آئینی عدالت کے چیف جسٹس کی مدت تین سال رکھنے کی تجویز ہے، وفاقی آئینی عدالت کی مستقل نشست اسلام آباد میں ہو گی۔

وفاقی آئینی عدالت کے فیصلے کا اطلاق پاکستان کی تمام عدالتوں سمیت سپریم کورٹ پر بھی ہوگا، سپریم کورٹ کے کسی فیصلے کا اطلاق وفاقی آئینی عدالت پر نہیں ہوگا۔

سپریم کورٹ کے فیصلے کا اطلاق ملک آئینی عدالت کے سوائے ملک کی تمام عدالتوں پر ہوگا۔