رکیے ،آگے جنت نہیں ہے
ہمارے ایک دوست ہیں ایک بار ملے تو کہنے لگے کہ شاہ جی یورپ جانا چاہتا ہوں میں نے کہا کہ یورپ میں کون سی دودھ اور شہد کی نہریں بہہ رہی ہیں دیکھا نہیں ہے ؟ وہاں پر پناہ گزینوں کا کیا حال ہے؟ کہنے لگے کہ نہیں شاہ جی یورپ جنت ہے میں چپ ہو گیا کہ شاید ان کا اور میرا تصور جنت الگ ہے۔
کچھ عرصے بعد کلاس میں ایک بچے نے کہا سر یہ میر ،غالب، اقبال کی شاعری تو ہم پڑھ ہی لیں گے یورپ جانے کا کوئی طریقہ بتا دیں میں نے کہا بیٹا اپنے ملک میں بھی تو محنت کر کے یورپ جیسا مقام حاصل کیا جا سکتا ہے! کہا نہیں سر، یورپ میں تو دودھ اور شہد کی نہریں واقعی بہہ رہی ہیں آپ نے یورپ کی تصاویر نہیں دیکھی وہاں کے ساحل سمندر نہیں دیکھے وہاں کام کرنے والوں کی فی کس آمدنی نہیں دیکھی اور تو اور سر وہاں پر دیکھیں کہ لوگوں کو کس طرح پہلے درجے کا شہری تسلیم کیا جاتا ہے!!! میں پھر چپ ہو گیا ۔
کچھ دنوں بعد گھر میں یہی بات خاتون خانہ سے ہونے لگی جب انہوں نے کہا کہ سنیں جی آپ یورپ جانے کی کوشش کیوں نہیں کرتے میں ؟نے کہا کہ میں یہاں اچھا بھلا کماتا ہوں لوگ میری عزت کرتے ہیں، میں کھاتے پیتے گھر کا آدمی شمار ہوتا ہوں ،میں یورپ کیوں جاؤں ؟خاتون خانہ بھی یہی کہنے لگی کہ بس رہنے دیں اس کھاتے پیتے حال کو۔ یورپ تو جنت ہے جنت۔ اس وقت شخصی آزادی کے معاملے میں یورپ دنیا بھر میں ٹاپ پر ہے میں پھر چپ ہو گیا۔
یورپ یورپ کی اس بحث نے مجھے یہ سوچنے پہ مجبور ضرور کیا کہ یورپ میں ایسا کون سا جنت کا تصور پیش کیا جا رہا ہے کہ چھوٹے بڑے بچے بوڑھے جوان سب یورپ جانا چاہتے ہیں؟ کسی 60 سال کی عمر کے آدمی سے پوچھا جائے یورپ جانا چاہتے ہو اور کیوں جانا چاہتے ہو تم تو پاکستان میں اپنی ذمہ داریاں پوری کر کے ریٹائر ہو چکے ہو تو وہ کہتا ہے کہ میں عزت سے مر سکوں گا۔ جوان سے پوچھا جائے کہ یورپ کیوں جانا چاہتے ہو تو وہ کہتا ہے کہ میں یورپ جا کے عزت کی زندگی گزارنا چاہتا ہوں لیکن یورپ جیسی جنت تک پہنچنے کے لیے کس جہنم سے گزرنا پڑتا ہے آئیں وہ دیکھتے ہیں۔
ہمارے جیسے ترقی پذیر ملکوں کے لوگ ہمیشہ کسی نہ کسی بہتر جنت کی تلاش میں رہتے ہیں ۔ایک زمانے میں متحدہ عرب امارات اور اس سے جڑے ممالک ہمارے لیے جنت کا تصور تھے تو اب یورپ کے وہ ممالک ہمارے لیے جنت کا تصور ہیں جہاں شخصی آزادی ہے. فی کس آمدنی زیادہ ہے لوگوں کو زندگی گزارنے کے بہت بہترین مواقع میسر ہیں اور تو اور وہاں پر ساحل سمندر بھی ہے لیکن اس سب کے باوجود یورپ جانا اتنا آسان تو نہیں اور اسی جنت تک پہنچنے کی چاہ میں لوگ کیسے کیسے جہنم کو پار کرتے ہیں۔ کبھی یونان میں کشتی حادثے کا شکار ہوتے ہیں کبھی اٹلی کی سرحد پر فائرنگ سے مارے جاتے ہیں اور کبھی ڈنکی فلم کے ان لوگوں کی طرح صحرا میں ہی دفن کر دیے جاتے ہیں جن کا پاسپورٹ کوئی اور استعمال کر لیتا ہے مگر پھر بھی یورپ تو ہر کوئی جانا چاہتا ہے۔
ابھی پچھلے دنوں ایک ایسے بچے کے یونان میں کشتی حادثے میں ڈوبنے کی اطلاع ملی جو غیر قانونی تارکین وطن کی ایک کشتی میں سوار ہو کر یورپ جانا چاہتا تھا ۔اس کا گھر محلے کے اچھے گھروں میں شمار ہوتا تھا ۔اس کے والد دبئی میں اچھی نوکری کر رہے تھے۔ اس کے دو بھائی ملک سے باہر تھے اور وہ یورپ کی ایسی جنت کی تصاویر پیش کرتے تھے کہ اس 13 سالہ بچے نے جس کی عمر ہماری طرح یا تو کنچے کھیلنے کی تھی یا کتابوں سے عشق کی تھی یا دوستوں کے ساتھ چائے کے ہوٹل پر بیٹھنے کی تھی وہ بھی یورپ کی جنت تک پہنچنے کے تصور میں زندگی کی اس جہنم سے گزر گیا کہ اب اس کے والدین کے پاس اس کی لاش ڈھونڈنے کے سوا کوئی چارہ نہیں اور وہ بوڑھی ماں جو شاید اس کے سر پر 16 یا 17 سال کی عمر میں سہرا سجاتی وہ بھی یہی سوال کرتی ہے کہ ایسی کون سی جنت یورپ میں ہے جو پاکستان میں نہیں لہذا میں یہ نہیں کہتا کہ یورپ میں سب کچھ موجود ہے میں یہ بھی نہیں کہتا کہ پاکستان میں بھی سب کچھ موجود ہے لیکن میں یہ ضرور کہتا ہوں کہ ٹھہریں اگے جنت نہیں اس جنت تک پہنچنے کے لیے اپ کو کس دوزخ سے گزرنا پڑے گا ایک نظر اس کو دیکھ ضرور لیں.
نوٹ: ڈیجیٹل پریس کلب اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔