امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ ان کے اندازے کے مطابق پاکستان اور بھارت کے درمیان ہونے والی حالیہ جنگ کے دوران پانچ بھارتی جنگی طیارے مار گرائے گئے تھے۔
وائٹ ہاؤس میں ریپبلکن اراکینِ کانگریس سے خطاب میں انہوں نے کہا کہ صورتحال سنگین ہوتی جا رہی تھی اور دونوں ممالک کے درمیان ایٹمی جنگ چھڑنے کا خدشہ تھا لیکن میں نے یہ جنگ رکوا دی۔
ٹرمپ نے واضح طور پر یہ تو نہیں کہا کہ بھارتی طیارے پاکستان نے مار گرائے، مگر ان کا کہنا تھا کہ حقیقت میں پانچ طیارے گرائے گئے تھے اور اگر بروقت مداخلت نہ کی جاتی تو حالات مزید بگڑ سکتے تھے۔
پہلگام واقعے سے کشیدگی کی ابتدا
یہ تنازعہ اپریل میں مقبوضہ کشمیر کے علاقے پہلگام میں نامعلوم افراد کے حملے سے شروع ہوا تھا جس میں 26 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ بھارت نے اس حملے کا الزام بغیر کسی ثبوت کے پاکستان پر عائد کیا، تاہم پاکستان نے یہ الزام مسترد کرتے ہوئے معاملے کی غیر جانبدار تحقیقات میں تعاون کی پیشکش کی تھی۔
امریکا نے حملے کی مذمت کی تھی لیکن پاکستان پر الزام عائد کرنے کے بھارتی دعوے کی حمایت نہیں کی تھی۔
بھارت کا حملہ اور پاکستان کا جواب
7 مئی کو بھارت نے طاقت کے نشے میں آ کر پاکستان پر جنگ مسلط کردی، جس کے بعد پاکستان نے بھرپور دفاع کیا اور رافیل سمیت بھارتی فضائیہ کے 5 جنگی طیارے مار گرائے۔ اگرچہ بھارت مسلسل ان طیاروں کی تباہی کی تصدیق سے انکاری رہا لیکن امریکی صدر ٹرمپ کے حالیہ بیان نے اس دعوے کو تقویت دی ہے کہ طیارے واقعی تباہ ہوئے تھے۔
دوسری طرف بھارت کا دعویٰ تھا کہ اس نے بھی پاکستانی طیارے مار گرائے، لیکن پاکستان نے واضح طور پر کہا کہ بھارت ایک بھی پاکستانی لڑاکا طیارہ گرانے میں ناکام رہا اور کوئی ثبوت بھی پیش نہ کر سکا۔
جنگ بندی اور ٹرمپ کی ثالثی
جنگ بندی کا مرحلہ 10 مئی کو آیا، جب صدر ٹرمپ نے دونوں ممالک کے رہنماؤں سے بات چیت کے بعد دونوں فریقین کو جنگ روکنے پر آمادہ کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے واضح کر دیا تھا کہ اگر جنگ بند نہ ہوئی تو امریکا دونوں ممالک سے تجارت ختم کر دے گا۔
صدر ٹرمپ نے اس موقع پر مسئلہ کشمیر پر ثالثی کی پیشکش بھی کی اور دونوں رہنماؤں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا:
“میں آپ دونوں کے ساتھ مل کر کام کروں گا تاکہ کشمیر کے معاملے کا کوئی حل نکالا جا سکے۔”
پاکستان کی حمایت، بھارت کی ہٹ دھرمی
پاکستان نے صدر ٹرمپ کی ثالثی کی پیشکش کا خیرمقدم کرتے ہوئے اسے مسئلہ کشمیر کے حل کی سمت ایک اہم قدم قرار دیا۔ دفترِ خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ ہم صدر ٹرمپ کی کوششوں کو سراہتے ہیں جو خطے میں امن و سلامتی کے لیے اہم ہیں۔
اس کے برعکس بھارت نے نہ صرف ثالثی کی پیشکش مسترد کر دی بلکہ جنگ بندی میں امریکی کردار کو بھی تسلیم کرنے سے انکار کیا۔
پاکستان کی جانب سے نوبیل انعام کی سفارش
پاکستان نے صدر ٹرمپ کے کردار کو نہ صرف تسلیم کیا بلکہ نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ اسحٰق ڈار نے نوبیل کمیٹی کو خط لکھ کر انہیں نوبیل امن انعام کا حقدار قرار دیا۔
یہ واقعہ جنوبی ایشیا میں ایک بار پھر اس بات کی یاد دہانی بن گیا کہ خطے کا امن کسی بھی وقت غیرذمہ دارانہ اقدامات کے سبب خطرے میں پڑ سکتا ہے، اور عالمی طاقتوں کا بروقت اور متوازن کردار کتنا اہم ہو سکتا ہے۔