نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) نے پیر کی رات گئے کے-الیکٹرک (KE) کے ملٹی ایئر ٹیرف (MYT) کے حوالے سے اپنے سابقہ فیصلے پر نظرثانی کرتے ہوئے متعدد دستاویزات جاری کیں۔
اس فیصلے کے ساتھ ہی محض ایک دستخط سے سیکڑوں ارب روپے کا مالی خلا پیدا ہوگیا۔
کے-الیکٹرک کو دیے گئے ٹیرف کو 39.97 روپے سے گھٹا کر 32.37 روپے فی یونٹ کر دیا گیا ہے، یعنی فی یونٹ 7.6 روپے کی کمی۔ یہ ترمیم مالی سال 2023-24 سے مؤثر قرار دی گئی ہے، جو کہ دو سال پرانی مدت ہے۔
اگر سادہ حساب لگایا جائے تو کے-الیکٹرک نے مالی سال 2024 میں تقریباً 15 ارب یونٹ فروخت کیے۔ اس حساب سے 100 ارب روپے سے زائد کا مالی خسارہ بنتا ہے — اور یہ صرف ایک سال کا ہے۔
دلچسپ امر یہ ہے کہ اس فیصلے کو صارفین کے لیے ریلیف اور بڑی بچت کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے، مگر حقیقت اس کے برعکس ہے۔ کے-الیکٹرک کے صارفین کو ایک پیسے کا فائدہ نہیں ملے گا، بلکہ بلوں میں اضافہ متوقع ہے، کیونکہ نئے فیصلے میں فیول ریفرنس پرائس میں تبدیلی کی گئی ہے۔
تو پھر یہ “بچت” کہاں جا رہی ہے؟ سارا بچایا گیا پیسہ براہِ راست وفاقی خزانے میں منتقل ہو جائے گا۔
حکومت نے بظاہر کراچی کے بجلی صارفین کو دی جانے والی سات روپے فی یونٹ سبسڈی ختم کر دی ہے۔ کاغذوں میں یہ مالی نظم و ضبط (Fiscal Discipline) دکھائی دیتا ہے، مگر حقیقت میں یہ رقوم ان شعبوں میں منتقل کی جا رہی ہیں جہاں ان کا استعمال کراچی کی صنعتی و تجارتی سرگرمیوں کی نسبت کم مؤثر ہوگا۔
ہر معیشت میں وسائل کی تقسیم کا اصول ہوتا ہے — ایک کی بچت دوسرے پر بوجھ بن جاتی ہے۔ پاکستان جیسے محدود مالی گنجائش رکھنے والے ملک میں اس طرح کے فیصلے براہِ راست کسی نہ کسی فریق پر مالی دباؤ ڈالتے ہیں۔ اس معاملے میں یہ بوجھ اب کے-الیکٹرک پر منتقل ہو چکا ہے۔
تشویش کی بات یہ ہے کہ اتنے بڑے پیمانے پر پالیسی کی تبدیلی کے باوجود واضح اور شفاف وضاحت نہیں کی گئی۔ یہ کوئی تکنیکی غلطی نہیں بلکہ حکمرانی (governance) کا مسئلہ ہے۔ اس نوعیت کے فیصلے مشاورت، شفافیت اور عوامی اعتماد کے ساتھ کیے جانے چاہییں۔ مگر افسوس کہ یہاں خاموشی، سیاسی بیانیہ اور گمراہ کن دعوے ہی دیکھنے کو مل رہے ہیں۔
کراچی کے شہریوں کو اکتوبر کے بجلی بل دیکھ کر جھٹکا لگے گا۔ اگر یہ فیصلہ واقعی عوام کے مفاد میں ہے تو حکومت کو واضح طور پر سمجھانا چاہیے۔
اور اگر ایسا نہیں ہے تو عوام کو بتایا جائے کہ آخر ان کے پیروں تلے کون سا مالی گڑھا کھودا جا رہا ہے، اور اس صورت میں کیا منصوبہ بندی ہے جب واحد بجلی فراہم کرنے والا ادارہ شدید مالی بحران کا شکار ہو جائے۔
فی الحال یہی کہا جا سکتا ہے کہ اس فیصلے نے کراچی کے شہریوں کو ایک اور سنگین دھچکا پہنچایا ہے۔




